باہمت خاتون نےمعزور بچوں اور ضعیف خواتین کا اولڈ ہوم بنالیا

ذہنی وجسمانی معذورافرادبڑھاپے میں دوسروں کے رحم وکرم پرآجاتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

کراچی:  ذہنی و جسمانی معذوری کا شکار افراد بڑھاپے کی عمر کو پہنچ کر مکمل طور پر دوسروں کے رحم وکرم پر آجاتے ہیں ایسے میں ان کے اپنے بھی تنہا چھوڑ دیں تو عمر کا آخری حصہ انتہائی مشکل حالات میں گزرتا ہے، خواتین کے لیے یہ صورتحال اور بھی زیادہ المناک ہوتی ہے۔

ذہنی و جسمانی معذوری کا شکار خواتین کے قانونی حقوق بھی صلب کرلیے جاتے ہیں، خاندانی جائیداد، املاک اور اثاثہ جات میں سے بھی ایسی خواتین کا جائز حق نہیں دیا جاتا اور ایسی خواتین کا تنہائی کے علاوہ کوئی ساتھی نہیں بچتا کراچی کی ایک باہمت خاتون شگفتہ صبا  نے ذہنی و جسمانی معذور لڑکیوں اور خواتین کو گھر جیسا ماحول فراہم کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے جس کا مقصد بے سہارا خواتین کو تحفظ اور بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ہے  اپنے پیاروں کے ستم کا نشانہ بننے والی بے سہارا خواتین ہوں یا ذہنی و جسمانی معذوری کے ساتھ تنہائی کا دکھ جھیلنے والی عمر رسیدہ خواتین کو شگفتہ صبا ان سب کو اپنی محبت بھری آغوش میں سمیٹ رہی ہیں۔

تربیتی ادارہ بنانے کے لیے شگفتہ نے اپنا زیور بھی بیچ دیا

شگفتہ صبا نے2001 میں ذہنی و جسمانی معذور بچوں کی تعلیم و تربیت کے ادارے کی بنیاد رکھی، زہرا نگر میں 140گز کا گھر کرائے پر لے کر اس میں معذور بچے بچیوں کے لیے تعلیم و تربیت کا ادارہ قائم کیا، ابتدا میں اپنے والد اور اہل خانہ کی مدد سے وسائل مہیا کیے پیسوں کی ضرورت پڑی تو اپنے زیور فروخت کردیے، سماجی خدمت کے جذبے سے لیس شگفتہ کو ابتدا  میں قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، معاشرے میں ایک تنہا  عورت کے لیے سماجی خدمات اور معذور افراد کی بحالی اور تعلیم و تربیت کا مشن بہت مشکل تھا، ایسے میں جہاں ان کی حوصلہ شکنی کرنے والے تھے وہیں انسانی خدمت کے جذبہ سے لیس کچھ ایسی بھی شخصیات تھیں۔

جنھوں نے ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی ان میں معروف سماجی کارکن جمی انجینئر اور ماہر قانون ضیا اعوان ایڈوکیٹ شامل ہیں، ذہنی و جسمانی معذوری کا شکار بچے بچیوں کے تربیتی مرکز میں آنے والے بچوں کو لکھنے پڑھنے کے علاوہ مختلف ہنر سکھائے گئے جن میں دستکاریاں، ایمبرائڈری، کمپیوٹر، میک اپ، مہندی لگانا شامل ہیں، معذور بچوں کے تلفظ اور بول چال کو درست کرنے کے لیے ان کی اسپیچ تھراپی، رویوں کو نارمل بنانے کے لیے Behaviour thropy بھی کرائی گئی،  جلد ہی سینٹر کے لیے جگہ کم پڑنے لگی جس پر جوہر بلاک 5 اور پھر صفورہ چورنگی پر سینٹر منتقل کرنا پڑا بعد ازاں یہ سینٹر گلستان جوہر بلاک تھری میں منتقل کردیا گیا، شگفتہ کے مطابق ہر سینٹر میں گھروں کے مالک کو یہ خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں این جی او ان کے مکان پر قبضہ نہ کرلے اس لیے سینٹر کی جگہ تبدیل کرنا پڑی۔

مرکز میں5سال کے دوران400خصوصی بچوں کوہنرمندبنایا

ذہنی و جسمانی معذوری کا شکار بچوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ پانچ سال تک جاری رہا اور 400کے لگ بھگ بچے بچیوں کو ہنرمند بنایا یہ سلسلہ مزید آگے چلتا لیکن اسی دوران بے سہارا اور تنہا رہ جانے والی عمر رسیدہ خواتین نے بھی ان سے رجوع کرنا شروع کردیا اکثر اوقات درمند دل رکھنے والے عام شہری ایسی خواتین کو ان کے پاس لے آتے جن کا کوئی سہارا نہیں ہوتا یا پھر ذہنی و جسمانی معذوری کی وجہ سے سڑکوں پر چھوڑ دیا جاتا تھا  ان میں ایسی بھی خواتین شامل تھیں جو کسی وقت میں صاحب حیثیت ہوا کرتی تھیں لیکن شوہر کی وفات کے بعد ان کے اثاثہ جات پر ان کے بچوں، رشتے داروں یا کاروباری شراکت داروں نے قبضہ کرکے انھیں بے دخل کردیا اسی طرح ایسی بھی خواتین تھیں جن کی اپنی اولادوں نے انھیں تنہا چھوڑ دیا تھا شگفتہ صبا نے 7سال قبل تنہا رہ جانے والی خواتین کی مدد کے لیے آغوش اولڈ ہوم قائم کیا جس کا مقصد بے سہارا خواتین کو تحفظ اور گھر جیسا ماحول فراہم کرنا تھا، اس اولڈ ہوم نے 17سال کی لڑکیوں سے لے کر 95 سال تک کی عمر رسیدہ خواتین کو اپنی آغوش میں لے رکھا ہے اس اولڈ ہاؤس میں دو سال سے قیام پذیر 100سال سے زائد عمر کی خاتون کی بھی اسی سال وفات ہوچکی ہے۔

بوڑھی خواتین کی بہبود کیلیے حکومت کچھ نہیں کرتی

شگفتہ صبا نے بتایا کہ کہ عمر رسیدہ خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے حکومتی سطح پر کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے عمر رسیدہ اور بے سہارا مرد کے مقابلے میں خواتین کی مشکلات بہت زیادہ ہیں ایسی خواتین کے لیے حکومت پنشن اور ہیلتھ انشورنس کارڈمتعارف کراکے ان کی مشکلات اور عمر کے آخری حصہ کی مشکلات کو کم کرسکتی ہے، اسی طرح عمر رسیدہ، ذہنی و جسمانی معذوری کی وجہ سے تنہا رہ جانے والی خواتین کی ملکیت اور املاک کے حق کے تحفظ کاکوئی نظام یا قانون موجود نہیں ہے ایسی خواتین کے جائز قانونی حقوق کے تحفظ کیلیے ایک ٹرسٹ کا قیام ناگزیر ہے جو ان کے اثاثہ جات اور املاک کی حفاظت کریں اور دھوکہ دہی سے حاصل کی جانے والی املاک کو تحویل میں لے کر ایسی خواتین کی فلاح وبہبود اور زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے استعمال کریں۔

شگفتہ کے مطابق خواتین میں ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے شعور اجاگر کرنے کی تقاریب زیادہ تر فائیو اسٹار ہوٹلوں میں منعقد کی جاتیں اور جو طبقہ ان مسائل کا شکار ہے وہ ان ہوٹلوں کے سامنے سے بھی نہیں گزرتا اس لیے ضروری ہے کہ زمینی حقائق کے مطابق ایسی آبادیوں میں ورکشاپ اور سیمینار منعقد کیے جائیں جہاں خواتین تک براہ راست رسائی آسان ہو، شگفتہ خواتین کے مسائل کے حل کے لیے ماؤں کے کردار کو بھی انتہائی اہم قرار دیتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ مائیں بچپن سے بچیوں کی تربیت اس انداز میں کریں کہ وہ ذمے دار بن سکیں اور اپنے فیصلے سوچ سمجھ کر کریں تاکہ ان کی آنے والی زندگی محفوظ اور پرسکون ہو۔

مالی مسائل پرآرٹس کونسل نے اشیا کے لیے مفت اسٹال دیا

جسمانی معذوری کا شکار بچے بچیوں کے تربیتی مرکز کو جلد ہی وسائل کی کمی کا مسئلہ آڑے آنے لگا جس کا حل شگفتہ نے ذہنی و جسمانی معذوری کا شکار بچوں کے بنائی گئی اشیا کی فروخت کے ذریعے نکالنے کی کوشش کی ، تاہم اس میں انھیں بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا زیادہ تر سرگرمیاں فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ہوتی تھیں یا بڑے ایونٹ جس میں حصہ لینے کے لیے بھاری فیس کی ادائیگی ان کے بس کی بات نہ تھی، شگفتہ نے ہمت نہ ہاری اور گلستان جوہر کی چورنگی ایک ہفتہ تک لب سڑک بیٹھ کر معذور بچوں کی تیار کردہ اشیا فروخت کرنا شروع کردیں اس دوران ان کا بیٹا بھی گود کا تھا جس کو لے کر وہ سڑک کنارے معذور بچوں کی بنائی اشیا  فروخت کرتی رہیں ان کی یہ ہمت اور محنت رنگ لائی اور انھیں آرٹس کونسل آف پاکستان نے تقریب میں مفت اسٹال فراہم کیا اور ہوٹلوں میں ہونیو الی سرگرمیوں میں بھی رعایت پر شرکت کی سہولت مل گئی۔

آج کے دور میں خواتین کامعاشی طورپرمضبوط ہوناضروری ہے

شگفتہ کے مطابق پاکستانی معاشرے میں خواتین اپنی پوری عمر اپنے گھر والوں کے لیے قربانیاں دیتی ہیں اور اپنے بڑھاپے کے لیے کوئی وسائل جمع نہیں کرپاتیں ان کے نام رکھی جانے والی جائیدادیں بھی ان کی نہیں ہوتیں اس لیے خواتین کا معاشی طور پر مضبوط ہونا بہت ضروری ہے اس کے لیے وہ ایسی خواتین کو جو ابھی بڑھاپے کی دہلیز سے بہت دور ہیں شعور اور آگہی فراہم کرتی ہیں۔ شگفتہ کے مطابق پاکستان میں خواتین مالیاتی خدمات سے دور ہیں اکثریت کے شناختی کارڈ ہیں نہ ان کا کوئی بینک اکاؤنٹ جس میں وہ اپنے اچھے وقتوں کی کوئی آمدن یا پس انداز کی جانیو الی رقوم رکھ چھوڑیں یا کسی پنشن اکاؤنٹ میں رکھیں تاکہ بڑھاپے میں کام آئیں۔

شگفتہ صبا خواتین کو ہنرمند بناکر معاشی طور پر خودمختار اور مضبوط بنانے کے لیے بھی مدد کرتی ہیں ان کے پاس آنے والی خواتین سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ کوئی ہنر رکھتی ہیں یا نہیں اگر وہ کوئی ہنر رکھتی ہیں تو اس ہنر کو نکھارا جاتا ہے اور 5 0ہزار روپے تک کے قرضے دیے جاتے ہیں تاکہ وہ کوئی اشیا بناکر فروخت کرسکیں زیادہ تر خواتین کو سلائی کڑھائی کی تربیت دی جاتی ہے اور انھیں کپڑا خام میٹریل اور مشین بھی فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے گھروں پر رہ کر سلائی کڑھائی کا کام کرسکیں یا پھر اپنے ملبوسات تیار کریں جو مختلف ایونٹس پر فروخت کرکے ایسی خواتین کی مدد کی جاتی ہے۔

شگفتہ کے اپنے بہن بھائی بھی پیدائشی ذہنی معذورتھے

شگفتہ صبا  کے اپنے بہن بھائی بھی پیدائشی ذہنی معذوری کا شکار تھے، شگفتہ نے ہوش سنبھالنے کے ساتھ ہی اپنے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال میں والدین کا ہاتھ بٹایا اور ملیر سعود آباد کے کالج سے گریجویشن کیا، شگفتہ کے والدین چاہتے تھے کہ ان کے ذہنی معذور بچے بھی تعلیم یا کوئی ہنر سیکھ کر معاشرے کا مفید شہری بن سکیں لیکن اس زمانے میں ذہنی و جسمانی معذوری کا شکار افراد کے لیے تعلیمی اداروں کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا اور یہ ذمے داری ہمیشہ کے لیے والدین اور اہل خانہ ادا کرتے تھے۔

شگفتہ جب بھی اپنے بہن بھائیوں کو اس حال میں دیکھتیں تو انھیں خیال آتا کہ اگر ان کے بہن بھائیوں اور ان جیسے افراد کو اچھا ماحول تعلیم اور تربیت مل جاتی تو ان کی زندگیوں کے مسائل اتنے نہ بڑھتے اپنے بہن بھائیوں کی ضرورتوں کا خیال رکھنے والی شگفتہ نے خصوصی افراد کی تعلیم و تربیت کو اپنی زندگی کا مشن بنالیا۔

عمررسیدہ ذہنی وجسمانی معذور خواتین کوعلاج کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے

شگفتہ صبا  کے مطابق آغوش اولڈ ہوم میں سکونت پذیر عمر رسیدہ اور ذہنی و جسمانی معذوری کے شکار افراد کی سب سے بڑی ضرورت طبی سہولتیں اور علاج معالجہ کی فراہمی ہے جیسے جیسے عمر ڈھلتی ہے بیماریاں حاوی ہوتی جاتی ہیں ایسی خواتین کو ایمرجنسی میں طبی سہولتوں کی ضرورت ہوتی ہے، شگفتہ کے مطابق شہر کے متعدد اسپتالوں سے رابطہ کیا لیکن کسی نے تعاون فراہم نہیں کیا آغوش اولڈ ہوم نے اپنے خرچ پر ایک ڈاکٹر اور میڈیکل اسٹاف کا بندوبست کیا۔

تاہم اسپتال جیسا علاج معالجہ کرنا ممکن نہیں ہے، عمررسیدہ خواتین کے ساتھ نفسیاتی مسائل بھی بہت زیادہ ہیں تنہائی کا شکار اور اپنوں کی جانب سے نظرانداز کیے جانے کی وجہ سے یہ خواتین مختلف نفسیاتی عارضوں کا شکار ہیں جس کے لیے باقاعدگی سے نفسیاتی معالجین کی بھی خدمات حاصل کی جاتی ہیں لیکن نفسیاتی امراض کی ادویات عام ادویات سے زیادہ مہنگی ہوتی ہیں اسی طرح مختلف اقسام کے امراض کے لیے لیبارٹری ٹیسٹ بھی مہنگے پڑتے ہیں۔

معاشرے کی بے حسی سے بزرگ بے سہاراخواتین کی تعدادبڑھ رہی ہے

شگفتہ کے مطابق معاشرے کی بے حسی کہیں یا مادیت پرستی بزرگ بے سہارا خواتین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ان میں ایسی خواتین بھی شامل ہیں جو ذہنی و معذوری کا شکار تھیں اور ان کے گھر والے حتی کے اولادیں بھی ان کی ذمے داری اٹھانے سے قاصر تھیں اور اولڈ ہوم میں چھوڑ گئیں اسی طرح ایسی لاتعداد خواتین بھی ہیں جو بے اولاد تھیں اور ان کے شوہر کی وفات کے بعد ان کا کوئی سہارا نہیں رہا ایسی خواتین بھی ہیں جو صاحب حیثیت تھیں اور جائیداد کی مالک تھیں لیکن ان کی جائیداد اور املاک قبضہ کرلی گئیں اور ان کی عمر یا ذہنی و جسمانی معذوری کا فائدہ اٹھاکر جائیداد کی منتقلی یا فروخت کی دستاویزات پر ان کے انگوٹھے اور دستخط کروالیے گئے ان خواتین میں زیادہ تر مڈل کلاس اور امیر طبقہ کی خواتین شامل ہیں غریب گھرانوں میں عمررسیدہ افراد یا معذور افراد کو تنہا چھوڑنے کا تناسب اب بھی کافی کم ہے، آغوش اولڈ ہوم میں اس وقت گنجائش سے زیادہ 35کے قریب خواتین اور لڑکیاں سکونت پذیر ہیں جنھیں کھانے پینے کے علاوہ علاج معالجے کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔

حکومت کوئی عمارت یا اراضی دیدے تاکہ بڑامرکزتعمیرکرسکوں

شگفتہ صبا مخیر حضرات کے تعاون سے بے سہارا خواتین کی دیکھ بھال کرتی ہیں جن پر فی کس ماہانہ 25 سے 30 ہزار روپے کا خرچ آتا ہے کچھ مخیر حضرات نے ایک سے دو بے سہارا خواتین کو اڈاپٹ کررکھا ہے اور وہ ان کا خرچ اٹھاتے ہیں شگفتہ صبا کے مطابق ہر ہفتہ ایک سے دو نئی خواتین کے لیے درخواستیں آتی ہیں جن کو رکھنا ان کے لیے بہت مشکل ہے انھوں نے سندھ حکومت اور انتظامیہ سے بارہا اپیل کی کہ کوئی سرکاری عمارت اس کے لیے مخصوص کی جائے یا پھر انھیں کوئی اراضی دی جائے تاکہ ایک بڑا مرکز تعمیر کیا جاسکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *